میرے خاک و خوں سے تُو نے، یہ جہاں کیا ہے پیدا!
یہ 23 ستمبر 1965ء کا ذکر ہے، جب اپنی ہی چھیڑی گئی جنگ میں پے در ےپے نقصانات اٹھانے کے بعد جنگ کو روکنے کی غرض سے بھارت نے اقوامِ متحدہ کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔ سلامتی کونسل نے فائر بندی کا حکم دے دیا۔ پاک فوج کے جوانوں نے اس حکم کی تعمیل میں پیش قدمی روک دی۔ بھارتی فوج نے اس فائر بندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھنے کا ارادہ کیا۔ میدان جنگ میں موجود پاک فوج کے کیپٹن کو جب اس بارے میں اطلاع ملی تو انہوں نے بھارتی کرنل کو پیغام بھیجا کہ اگر اس نے ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو وہ اس کی زندگی کا آخری قدم ہوگا! سِکھ کرنل کیلئے پیغام ہی کافی رہا اور اس نے آگے بڑھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
انہوں نے 4 اپریل 1938 کو گجرات کے علاقے ڈِنگہ میں جنم لیا۔ ان کا نام محمد اکرم رکھا گیا۔ ان کے والد کا تعلق “نِکّا کلاں” سے تھا، جو کہ جہلم سے چھبیس ستائیس میل دور ٹلہ جوگیاں (جو کہ رانجھا کی نسبت سے مشہور ہے) کے دامن میں واقع ہے، ان کا خاندان فوجی پس منظر کا حامل تھا۔ ان کے دادا صوبیدار خان نے بیس سال فوج کی ملازمت کی، پہلی جنگِ عظیم میں دادِ شجاعت دینے پر حکومت کی جانب سے تمغے اور زرعی اراضی بطور انعام حاصل کی۔ ان کے والد نے بھی فوج میں شمولیت اختیار کی، اٹھارہ برس ملازمت کے بعد 1937ء میں ریٹائر ہوئے۔ ان کے چھ میں سے چار بیٹوں نے فنِ سپہ گری کو اپنایا۔ ان کے آبائی گاؤں کی وجۂ شہرت بھی یہ تھی کہ اس علاقے کے بہت سے جوان وطن کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگا چکے تھے۔
بچپن کے پانچ برس ڈِنگہ میں گزارنے کے بعد محمد اکرم نِکّا کلاں آ گئے اور مقامی اسکول میں داخلہ لیا۔ وہ بچپن سے ہی سنجیدہ اور ایمان دار تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے، جب وہ چوتھی جماعت کے طالب علم تھے، ان کے استاد نے تمام طلباء کی فیس وصول کی مگر وہیں میز پر بھُول گئے۔ جب یاد آنے پہ واپس اسکول آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ محمد اکرم ان کی امانت سنبھالے انہی کےمنتظر بیٹھے ہیں!
انہیں بچپن سے ہی فوج میں شمولیت کی لگن تھی، انہوں نے سپاہی کی حیثیت میں فوج میں شامل ہونے کی کوشش کی مگر ان کی کم عمری اور کم تعلیم اس شوق کی راہ میں حائل ہو گئے۔ لہٰذا انہوں نے “بوائے رنگروٹ” کی حیثیت سے فوج میں شامل ہونا منظور کر لیا ، انہیں 14/4 رجمنٹ میں بھیج دیا گیا، انہوں نے پونے تین برس اسی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور تعلیمی مدارج بھی اسی دوران طے کئے۔ بعد میں انہوں نے آرمی کا خصوصی امتحان پاس کیا، فوجی کیڈر پاس کئے اور لانس نائیک ہو گئے۔ آخرکار 1961ء میں ریگولر کمیشن حاصل کیا۔ کیڈٹ کی حیثیت سے کاکول اکیڈمی میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر انہیں کیڈٹ سارجنٹ بنا دیا گیا۔
کانگو کے وزیراعظم “مباسا” کی مناسبت سے انہیں “مباسا سارجنٹ” کا خطاب بھی دیا گیا، کیونکہ انہوں نے بھی پوسٹ مین سے وزیراعظم بننے والے مباسا کی طرح معمولی درجے سے ترقی کی منازل طے کیں! 1961ء میں کمیشن ملتے ہی انہیں نمبر 4 ایف ایف رجمنٹ میں بھیج دیا گیا۔ انہوں نے کیپٹن کی حیثیت سے 1965ء کی جنگ میں حصہ لیا۔ 1970ء میں میجر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انہیں 31 مارچ 1971ء کو بطور میجر مشرقی پاکستان میں تعینات کیا گیا۔
وہ ہاکی اور باکسنگ کے بہت اچھے کھلاڑی تھے، شکار کے شوقین تھے، اور ایک ماہر نشانہ باز مانے جاتے تھے۔ انہوں نے ہاکی اور باکسنگ کے مقابلوں میں بیسیوں انعامات بھی حاصل کئے۔
1971ء میں بھارت نے مشرقی پاکستان پر جنگ مسلط کی، جس میں کچھ عالمی طاقتوں کا کردار بھی شرمناک تھا۔ 21 نومبر 1971ء کو بھارت کی طرف سے مشرقی پاکستان پر کئےگئے حملے میں اس کی دو بریگیڈ پیدل فوج اور ایک ٹینک رجمنٹ شامل تھی، اس جنگ میں دشمن نے جیسور کے شمال سے کومیلا، سلہٹ، چٹاگانگ، میمن سنگھ، رنگ پور تک جنگ چھیڑ دی تھی، مگر سخت جانی اور مالی نقصان اٹھانے کے بعد اس نے دیناج پور کے علاقہ “ہِلّی” میں ایک نیا محاذ کھولنے کا ارادہ کیا۔ اس حملے میں اس کی بیسویں پہاڑی رجمنٹ کے 165ویں بریگیڈئیر اور 49ویں بریگیڈ نے حصہ لیا، جنہیں جیٹ طیاروں اور سکواڈرن ٹینکوں کی کمک بھی حاصل تھی مگر اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ محاذ اس لئے اہم تھا کہ دشمن اس پر قابض ہو کر مشرقی پاکستان کے باقی حصوں کی سپلائی معطل کرنا چاہتا تھا۔ پے درپے حملوں میں ناکامی کے بعد دیناج پور پر دشمن کی طرف سے ہونے والا ہر حملہ پہلے سے زیادہ شدید تھا۔ دیناج پور میں متعین میجر محمد اکرم کی 4 فرنٹیئر فورس رجمنٹ دیناج پور کے اگلے مورچوں پر تعینات تھی اور اس کی قیادت میجر ممتاز ملک کر رہے تھے۔ میجر محمد اکرم کی “سی کمپنی” کو دشمن پر دائیں طرف سے دباؤ ڈالنے کا حکم ملا۔
میجر محمد اکرم شہید کے اردلی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی لڑائی زوروں پر تھی۔ میں صاحب سے آگے جا رہا تھا،مجھے صاحب کی جان عزیز تھی، یکایک وہ رکے اور مجھے کہا،” سجید! تنخواہ میں زیادہ لیتا ہوں یا تم؟”
میں نے کہا صاحب آپ زیادہ لیتے ہیں،
کہنے لگے “ہم حکومت سے زیادہ پیسہ لیتا ہے اس لیئے مرنے کا حق بھی ہم کو پہلے ہے۔”
3 دسمبر 1971ء کو دیناج پور پر ہونے والے حملے میں دشمن کو بکتر بند گاڑیوں اور انفنٹری کی مدد حاصل تھی، جبکہ پاک فوج کو اسلحے کی کمی کا سامنا تھا اور اس کی کئی بکتربند گاڑیاں قابلِ استعمال نہ رہی تھیں، دشمن کی بکتربند رجمنٹ پورے علاقے میں پھیل چکی تھی۔
اس مرحلے پر میجر محمد اکرم شہید نے پیشہ ورانہ مہارت اور اعلٰی قیادت کا ثبوت دیا۔ دشمن کی پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے دشمن کے ٹینک تباہ کرنے کا فیصلہ کیا اور جنگی حکمت عملی کے تحت دشمن کو آگے بڑھنے کا موقع دیا۔ 5 دسمبر 1971ء کو میجر محمد اکرم’الف الف کمپنی’ کی کمان کرتے ہوئے 40 MMC اور ایک سپاہی کے ساتھ دشمن کے ٹینکوں کی طرف بڑھے۔ دشمن نے جب جوابی حملے کے آثار نہ پائے تو مزید آگے بڑھنے لگا، یہی وہ موقع تھا جب میجر محمد اکرم شہید اور ان کے ساتھیوں نے دشمن پر دستی بموں، رائفلوں اور سنگینوں سے حملہ کردیا، اس غیر متوقع حملے میں دشمن بھاگ کھڑا ہوا اور میجر محمد اکرم نے 150 گز آگے بڑھ کر ٹینک شکن ہتھیار کی مدد سے دشمن کے تین ٹینک تباہ کر دئیے، مگر دشمن کی طرف سے جوابی حملے میں آئی گولیوں کی بوچھاڑ نے ان کا سینہ چھلنی کر دیا اور انہوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کی شہادت کے بعد حوالدار عبدالغنی نے کمان سنبھالی اور دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔
جب تک وہ محاذ پر موجود رہے، دشمن کو آگے بڑھنے کی جرأت نہ ہو سکی ۔ میجر آصف ہارون اور لانس حوالدار میر نواز جب ان کا جسدِ خاکی اٹھا کر لائے تو پوری کمپنی ساکت ہو کر رہ گئی۔ انہیں اگلے روز بوگرہ میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
ملک کی حفاظت کا عہد پورا کرنے اور لازوال جرأت اور استقلال کا مظاہرہ کرنے پر میجر محمد اکرم شہید کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے اعلٰی ترین فوجی اعزاز “نشانِ حیدر” سے نوازا گیا۔
گو کہ شہادت کے وقت ان کی عمر 33 برس تھی، مگر انہوں نے اپنے بھائیوں کے مستقبل سنوارنے کی خاطر شادی نہ کی تھی، مگر ان کی شادی کی بات دو گھرانوں میں ضرور چل رہی تھی۔ ان کی محبت ہر معاملے میں بےلوث تھی، بھلے وہ ان کے بھائی ہوں یا مادرِ وطن سے ان کی الفت! ذیل میں دیا گیا ان کا خط، جو انہوں نے 1971ء میں مشرقی پاکستان میں تعیناتی کے دوران اپنے والد کو لکھا، ان کی وطن سے محبت اور خدا پر غیر متزلزل یقین کا منہ بولتا ثبوت ہے :
“اسلام، قوم اور ملک کی حفاظت کے سلسلے میں کوئی جان قیمتی نہیں۔ ہم سب کا فرض ہے کہ مذہب اور ملک کی حفاظت کے لئے اپنی جان کی قربانی پیش کریں جو کہ اس سلسلہ میں پاکستان کی فوج کر رہی ہے۔ اب کس کی قربانی اللّٰہ تعالٰی کے حضور میں قبول ہوتی ہے، ہم میں سے کسی کو علم نہیں ہے، البتہ ہم میں سے جو جوان یا افسر مُلک کی حفاظت میں اپنی جان قربان کرتا ہے، باقی اس پر فخر محسوس کرتے ہیں اور نئے جذبے سے اللّٰہ کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کا عزم کرتے ہیں۔
لیکن جیسا کہ ہمارا ایمان ہے کہ موت کا وقت، جگہ اور واقعات سب پہلے سے مقرر ہیں اور اللّٰہ تعالٰی کے علاوہ کوئی بھی اس میں تبدیلی نہیں کر سکتا تو پھر فکر کس بات کی ہے؟ ہمارے لئے یہی بات بہتر ہے کہ ہم اپنے مُلک ، مذہب اور افواج کی حفاظت اور فتح کے لئے دعا کرتے رہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے لکھا تھا کہ مشرقی پاکستان کے حالات معمول پر آ چکے ہیں۔ ملک میں جنگ کی کیفیت نہیں ہے، سرحد پر دونوں قسم کے دشمن سے کبھی کبھی جھڑپ ہو جاتی ہے جو کہ تشویش کی بات نہیں، لہٰذا فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ویسے جس کا وقت پورا ہو چکا ہے اسے تو کوئی نہیں روک سکتا۔ آدمی گھر میں بیٹھے بیٹھے یا معمولی حادثے میں بھی مر جاتے ہیں۔ ہم سب کیلئے دعا کرتے رہا کریں، ہم عزم کئے ہوئے ہیں کہ پاکستان کے دشمنوں کو نیست و نابود کر کے دم لیں گے، ہماری دعا ہے کہ اللّٰہ تعالٰی ہمیں اس کام کے کرنے کی توفیق دے۔ زیادہ آداب
آپ کا بیٹا ۔۔ اکرم ملک”