چیتے کا جگر چاہیے شاہیں کا تجسس

0

الیکٹرانک میڈیا اور کرنٹ افیئرز کے دور میں آپ نے یقیناً پٹھان کوٹ ائیر بیس کا نام سن رکھا ہے، جسے پچھلے سال دہشت گردوں نے نشانہ بنایا تھا۔ حسبِ دستور بھارتی میڈیا اور اکابرین نے اس حملے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا مگر کسی ثبوت کی عدم دستیابی کے باعث یہ الزام ثابت کرنے سے قاصر رہے۔ لیکن ایک وقت تھا جب پاکستان نے واقعی بھارتی پٹھان کوٹ ائیر بیس پر ہلّہ بول دیا تھا، اور وہ وقت تھا 6 ستمبر 1965ء کا۔

پٹھان کوٹ بھارتی پنجاب کا شہر ہے جو کہ پنجاب، ہماچل پردیش اور جموں وکشمیر کے سنگم پر واقع ہے جبکہ مغرب میں اس کی حدود پاکستان سے ملتی ہیں۔ پٹھان کوٹ کا ائیر بیس پشاور ائیر بیس کی سفری حدود میں آتا تھا لہٰذا پشاور میں موجود سکواڈرن نمبر 19 کو جنگِ ستمبر میں پہلے حملے کیلئے پٹھان کوٹ کے ہوائی مستقر کو نشانہ بنانے کا حکم ملا۔

6 ستمبر 1965ء کو سکواڈرن نمبر 19 کے چھ ایف۔ 86 جہاز hot petrol پر تھے مگر جیسے ہی ائیر ڈیفینس کمانڈر کو بھارتی حملے کا علم ہوا، ان چھ جہازوں کا رُخ واہگہ کی سمت موڑ دیا گیا تاکہ وہ بھارتی فوج کی پیش قدمی روک سکیں۔ پاک فضائیہ کے حملے کے باعث چند ہی منٹوں میں جی ٹی روڈ جلتے ہوئے ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کے ملبے کے ڈھیر کا منظر پیش کرنے لگی۔ بھارتی حملے کو کامیابی سے پسپا کرنے کے بعد ان چھ جہازوں نے پشاور کا رُخ کیا تاکہ اگلے حملے کی تیاری کر سکیں۔

شام ساڑھے چار بجے سکواڈرن نمبر 19 کی آٹھ ایف۔ 86 اور دو سائیڈ وائنڈرز پر مشتمل فارمیشن حملے کیلئے 11000 میٹر کی بلندی پر ہوا میں محوِ پرواز ہو چکی تھی جسے بعد میں ریڈار سے بچنے کیلئے نیچی پرواز کرنا تھی۔ حملے کی منصوبہ بندی کے وقت یہ علم نہیں تھا کہ انڈین ائیر بیس پر کوئی جہاز مقابلے کیلئے موجود ہوگا یا نہیں، مگر قسمت نے یہاں بھی ان کا ساتھ دیا۔

پٹھان کوٹ ائیر بیس کے سٹیشن کمانڈر گروپ کیپٹن روشان سُوری کو ائیر ڈیفینس سے ایک ارجنٹ کال موصول ہوئی جس میں اسے بتایا گیا کہ پاکستان کے کئی سیبر طیارے اڑان کے بعد منظر سے غائب ہو گئے ہیں، لہٰذا ممکنہ حملے کے پیش نظر کامبیٹ ائیر پٹرول کی اجازت دی جائے، مگر گروپ کیپٹن نے اجازت دینے سے انکار کردیا جس کا خمیازہ بھارتی فضائیہ کو بھگتنا پڑا۔

شام پانچ بج کر پانچ منٹ پر پاک فضائیہ کی فارمیشن پٹھان کوٹ کے فضائی اڈے پر پہنچ چکی تھی، یہاں بہت سے بھارتی طیارے اپنے dispersal pan میں ایستادہ تھے، جن میں بھارت کے جدید ترین مِگ طیارے بھی شامل تھے، جو کمانڈر سجاد حیدر کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ ان کی بمباری کے نتیجے میں دونوں مِگ طیارے دیکھتے ہی دیکھتے شعلوں کی لپیٹ میں آگئے۔

گو کہ پاکستانی ہوابازوں کو محض دو بار حملہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا مگر دشمن کے فضائی مستقر پر موجود اتنے زیادہ طیارے اور مقابل کسی بھی مزاحمت کی غیر موجودگی کی وجہ سے انہوں نے پے درپے کئی حملے کئے اور دشمن کے جنگی طیاروں کو زمین پر ہی تباہ کر دیا۔

بھارتی فضائیہ کے ونگ کمانڈر کوریان سنگھ کے بقول اس روز پٹھان کوٹ ائیر بیس پر چار پاکستانی سیبر طیارے نیچی پرواز کرتے ہوئے مشین گن سے حملہ کر رہے تھے اور اس دوران دو ایف 104 سٹار فائٹر اوپر سے ان کو کور دے رہے تھے، جیسے ہی یہ چار سیبر وہاں سے ہٹے، چار دوسرے سیبر طیاروں نے ان کی جگہ لے لی اور گولیاں برسانے لگے۔ ائیر بیس پر موجود بھارتی فضائیہ کے افسروں نے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔ اس وقت دشمن کا محض ایک طیارہ تربیتی مشق کی خاطر محو پرواز تھا جسے بھارتی فضائیہ کا فلائنگ آفیسر مائیک مکموہن اڑا رہا تھا، جسے ریڈیو ٹریفک نے ہدایت دی کہ وہ پٹھان کوٹ سے دور رہے اور پاکستانی حملہ ختم ہونے کے بعد ہی نیچے اترے۔

پٹھان کوٹ میں اس وقت متعین بھارتی فضائیہ کے افسر راگھویندرن سبرامانیم نے اپنی سوانح عمری میں ذکر کیا ہے ” اس حملے کے روز جان بچانے کی غرض سے تقریباً چھ سات پائلٹ ایک گڑھے میں ایک کے اوپر ایک لیٹے ہوئے تھے۔ سب سے نیچے والا پائلٹ چِلّایا کہ میرا بوجھ سے دم گھٹا جا رہا ہے، جس پر سب سے اوپر والے پائلٹ نے کہا”مجھ سے اپنی جگہ بدلو گے؟” اگر ہم اپنے چار نیٹ بھی فضا میں بھیج دیتے تو پاکستانی ہمارا اتنا نقصان نہیں کر پاتے۔”

پاک فضائیہ نے اس حملے میں دو بھارتی مِگ طیارے، 4 مسٹئیرز اور ایک سی۔119 تباہ کرنے کا دعوٰی کیا جبکہ ائیر ٹریفک کنٹرول کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا، جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ اس حملے میں محض دو مِگ طیارے تباہ ہوئے۔ مگر یہ پاک فضائیہ کا کارنامہ ہے کہ اس حملے کی بدولت دشمن کے جدید ترین مِگ طیارے بقیہ پاک بھارت جنگ میں حصہ لیتے ہوئے دکھائی نہیں دئیے۔ پاکستانی ہواباز ایک کامیاب مشن کے بعد پاکستانی ائیر بیس پر بحفاظت لینڈ کر چکے تھے۔

اس کامیاب مشن میں حصہ لینے والے چھ ہوابازوں سکواڈرن لیڈر سجاد حیدر، فلائٹ لیفٹیننٹ محمد اکبر، فلائٹ لیفٹیننٹ دلاور حسین، فلائٹ لیفٹیننٹ غنی اکبر ، فلائٹ لیفٹیننٹ ارشد سمیع اور ونگ کمانڈر ایم جی تواب کو بعد ازاں ستارۂ جرأت سے نوازا گیا۔

عددی اور تکنیکی لحاظ سے اپنے دشمن سے کم ہونے کے باوجود پاکستان کی برّی ، بحری اور فضائی افواج نے اس جنگ میں اقبال کے اس شعر
کافر ہو تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

کی عملی تصویر پیش کی اور جرأت اور بہادری کی وہ لازوال داستانیں رقم کیں جو دنیا کی جنگی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہیں اور جنہیں نہ صرف ہم یاد رکھیں گے بلکہ دشمن بھی کبھی فراموش نہیں کر پائے گا۔ اس جنگ میں حصہ لینے والے ہر شہید اور ہر غازی کو یومِ فضائیہ کے موقع پر ہر پاکستانی کا سلام!

is pursuing her degree in medicine and a free lance writer.

Leave A Reply