سوشل میڈیا کی زندگی

1

Social Media, Facebook, Twitter,

حالیہ چند سالوں میں ابلاغ وترسیل میں سوشل میڈیا کے ذریعے رونما ہونے والے انقلاب نے عام انسان کی زندگی پرواضح اثرات مرتب کیے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے تیزرفتار گهومتے پہیے کی بدولت آج ہر شخص محض اپنے فون کی اسکرین پر انگلیوں کی چند حرکات سے دنیا بهر میں ہونے والے واقعات کے متعلق نہ صرف جان سکتا ہے بلکہ مختلف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی مدد سے اپنی رائے کا اظہار بهی کرسکتا ہے۔ سوشل میڈیا میں انٹرنیٹ بلاگ، سماجی روابط کی ویب سائٹس، موبائل میسیجنگ سمیت وہ تمام ذرائع شامل ہیں جن سے خبروں اور معلوماتی مواد کو فروغ دیا جا سکے۔ درحقیقت یہ مختلف ذرائع سے عوام کے درمیان روابط پیدا کرنے کی ایک ایسی صورت ہے جس نے عالمگیریت کے تصور کو بڑی حد تک سچ کر دکهایا ہے۔

موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی افادیت واہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اپنے لامحدود اور وسیع بہاؤ کی بدولت سوشل میڈیا کی زینت بننے والا ہر واقعہ کسی اخبار کی سرخی جیسی اہمیت اختیار کرلیتا ہے، اور اس وسیع نیٹ ورک کی بدولت ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے شخص تک معلومات کی ترسیل کا مرحلہ نہایت تیزی سے طے ہوجاتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں بذریعہ سوشل میڈیا سیاسی، سماجی، معاشی حالات وواقعات سمیت ظلم، زیادتی، لاقانونیت جیسی بے شمار معاشرتی برائیوں کے خلاف آواز بلند کیے جانے کے واقعات اس کی واضح مثال ہیں۔ عرب ممالک میں اٹهنے والی تبدیلی کی لہر بهی عوام کے سوشل میڈیائی اتحاد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

دنیا بهر کی طرح پاکستان میں بهی انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتهہ اضافہ دیکها جاسکتا ہے. ، جن میں سے تقریبا تیس سے چالیس فیصد لوگ کہیں نہ کہیں سوشل میڈیا سے وابستہ ہیں۔ ملک کی تقریبا 35 فیصد آبادی نوجوان طبقے پر مشتمل ہے جو نہ صرف ابلاغ وترسیل کے اس وسیع جال سے حد درجہ متاثر ہے بلکہ اپنے آپ کو ہر طرح اس چکا چوند کا حصہ بنوانے کا خواہشمند بهی۔ فیس بک، ٹوئیٹر، یو ٹیوب اور مختلف بلاگنگ سائٹس کے ذریعے باآسانی اپنے اردگرد ہونے والے واقعات اور اپنے ذاتی خیالات کے پرچار کیلئے  ان کی دلچسپی دیدنی ہے۔ اور یوں ہر عام آدمی سٹیزن جرنلسٹ بن چکا ہے۔ ان ڈیجیٹل ٹولز سے خبریں اور اطلاعات جس تیزی سے اور جتنی بڑی تعداد میں پهیلائی جاتی ہیں اس میں کوئی دو رائے نہیں، تاہم اگر اس سے پڑنے والے اثرات کی بات کی جائے تو منفی اور مثبت دونوں پہلو ہی سر ابهارتے نظر آتے ہیں۔

4 3

کسی بهی واقعے کو شہہ سرخی میں بدل دینے پر قادر اس سوشل میڈیائی بہاؤ کے ماضی میں دونوں ہی پہلو کئی بار واضح ہوچکے ہیں۔ شاه زیب قتل کیس اس حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ بیس سالہ شاہ زیب کے قتل کی اطلاع ملتے ہی اس کے ساتهیوں اور سول سوسائٹی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر قاتلوں کی گرفتاری کیلئے جو مہم شروع کی وہ سب کے سامنے ہے۔ فیس بک پر بننے والا ایک پیج اور پهر  اس کے شئیرز نے لاتعداد نوجوانوں کو انصاف کے مطالبے کیلئے وہ پلیٹ فارم مہیا کیا جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا۔ اس کے علاوہ دورانِ انتخابات سوشل میڈیا کے استعمال کو بهی کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ آدهے سے زیادہ انتخابی معرکہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی سر کیا گیا۔ جہاں ایک طرف نوجوان اپنے قائدین کے منشوروں اور نعروں کو فیس بک اسٹیٹس اور ٹوئیٹس کے ذریعے پهیلانے کی کوشش کرتے رہے وہیں مخالفین پر بہتان تراشی اور کیچڑ اچهالنے کا سلسلہ بهی جاری رہا۔

2

تصویر کا دوسرا رخ  دیکهیں تو یہ سوشل میڈیائی جن معاشرے پر بڑی حد تک منفی اثرات مرتب کرنے کا باعث بهی بن رہا ہے۔ آج کا نوجوان اس انفارمیشن ہائی وے سے اس قدر مرعوب ہے کہ توجہ حاصل کرنے کی غرض سے کسی بهی چهوٹے سے چهوٹے واقعے کو بڑها چڑها کے پیش کرنے سے بهی گریزاں نہیں۔ اپنی روایات سے دوری اور اندهی تقلید نے جہاں بہت سی اخلاقی برائیوں کو جنم دیا ہے وہیں قومی زبان سے دوری پر بهی کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری جانب اسٹیٹس کانشئس طبقہ اپنی جعلی دهاک بٹھانے کے لئے نہ صرف جهوٹ اور دهوکہ دہی بلکہ بسا اوقات سائبر کرائم تک بهی پہنچ جاتا ہے۔

1

کراچی سے اغوا ہونے والے مصطفی کا واقعہ بھی جسے بعد ازاں پولیس نے بحفاظت بازیاب کروایا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے رونما ہونے والے جرم کی کہانی ہے۔ فیس بک پہ کی گئی دوستی کے بعد تیرہ سالہ مصطفی کو کهانے کی دعوت دے کر اغوا کیا گیا اور بعد ازاں اسکے گهر والوں سے تاوان کا مطالبہ کیا گیا، تاہم پولیس نے ملزمان اور مصطفی کی چیٹ ہسٹری سے ملزمان کا پتہ لگا کر اسے بازیاب کرالیا۔

5

سماجی روابط کی ویب سائٹس استعمال کرنے کے عادی نوجوان نہ صرف اپنے دن کا بیشتر حصہ وہاں گزار دیتے ہیں، بلکہ بسا اوقات اپنے روٹین کے کام ترک کرکے بهی ان سائٹس کا استعمال کرتے رہتے ہیں، جس سے الیکٹرانک تعلقات تو کسی حد تک بن جاتے ہیں لیکن اپنے اردگرد سے لاتعلقی ایک عام سی بات ہے۔ گو کہ سوشل میڈیا کا صحیح یا غلط استعمال صرف اور صرف انسان کی اپنی مرضی پہ منحصر ہے، مگر اس بات پہ بهی شک نہیں کیا جاسکتا کہ کسی بهی چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال جہاں باخبر رکهنے کا باعث ہے وہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تجربے کو صحتمند اور سودمند ذریعۂ معلومات بنایا جائے۔ بنا تصدیق کے کسی بهی خبر یا مواد کی تشہیر نہ کی جائے اور ذاتی معلومات کی ترسیل میں بهی احتیاط برتی جائے۔

Discussion1 Comment

  1. اچها برا ہر جگہ ہوتا ہے. زیادتی ہر چیز کی البتہ بری ہے. نیٹ اور میڈیا ہائیلی ایڈکٹو ہیں. زندگی متوازن ہو تو ہی جنت ہے. ورنہ بهگتنا پڑتا ہے. بہت خوب.لکها .

Leave A Reply