نہ لکھتا، مگر لکھنا ہی پڑا۔
مانا کہ ویسی کاٹ نہیں، کہ لکھنا میرا پیشہ نہیں، ایک لگن، بہرحال ضرور ہے۔ یہ بھی مانا کہ ویسی فالؤنگ بھی نہیں، مگر اسکی کبھی پرواہ نہ کی، نہ ہے، اور نہ ہی کبھی ہوگی۔ اور یہ تو مکمل طور پر سرِ تسلیم خم کرکے مانا کہ کہاں مجھ سے “پینڈو بخشو ” کا ایک تھکا ہوا بلاگ اور کہاں برِ صغیر کے سابقہ آقاؤں کی نشریاتی اُردو۔ اور جناب، یہ تو سر، کندھے، گُھٹنے، ہاتھ اور کمر، سب کچھ ہی جھکا کر مانا کہ کہاں مبشر اکرم کا تنگ سا تخیل اور کہاں وہ “وسعتیں” اور گہرائیاں۔
میرے سابقہ گاؤں اور حالیہ قصبہ، ملکوال، کی پنجابی میں ایک کہاوت ہے: ذات دی کوڑھ کِلی، تے شہتیراں نوں جھپے۔ اسکی اُردو نہیں کرونگا کہ جس کو اسکی چاہ ہو، وہ خود ہی کھوج لے۔ مگر سوچا کہ آج “شہتیر” کو جپھا ڈال ہی لیا جاوے۔
کیا بہتر نہ تھا کہ بخشو کے بدن پر باقی لنگوٹی کھینچنے کی کوشش کی بجائے اسے دو گز ٹاٹ ہی فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی کہ بھیا ٹھیک ہے، بہت کچھ ہاتھ سے نکل گیا، مرضی سے بھی اور بغیر مرضی کے بھی، مگر باقی لنگوٹی کو بھی غنیمت جانو اور یہ لو دو گز دماغ کا ٹاٹ کہ جس سے کچھ تو ستر پوشی ہو۔ لازمی کہ جو دِکھتا ہے، چونکہ وہی بِکتا بھی ہے، تو یار لوگوں نے بھی یہ جانے بغیر اس کو آس پاس، اوپر نیچے، دائیں بائیں، غرضیکہ ہر طرف “ٹھوک ڈالا،” کہ خود ترحمی خود کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے کہ اس میں چاہے آپکے بیان کی بےپایاں “وسعت” ہو یا “بخشو کی عزت افزائی،” انسان حوصلہ ہارنے کی جانب کچھ زیادہ رفتار سے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ مجھے اسلام کے ہجے بھی صحیح نہیں آتے مگر حضرت علیؑ کا ایک قول دماغ کے پلُو میں باندھ کر رکھا ہمیشہ کہ: مصیبت میں گھبراہٹ، دوسری مصیبت ہوتی ہے۔
مگر چلیں محترم، یہاں کم از کم آپ کی عظمت اور ملکوال کی کوڑھ کِلی میں ایک چیز تو مشترکہ نکلی کہ مرضی کی خودمتمکنہ صحافتِ بلندی کرو یا اپنے مذہب کی چنیدہ تشریح، مقصدیہ کہ”ڈنگ ٹپا” دیا جاوے۔ ویسے بھی اب جسکے ہاتھ میں گاجر نما مائیکروفون ہو، ایک مشہور ویب سائٹ ہو، راکٹ لانچر نما کالا کیمرہ ہو، یا قمیض کی پٹی پر مکھی کی طرح بیٹھا ایک چھوٹا وائرلیس مائیک، اسی کے پاس تو سارے لائسینس ہیں۔ وہ چاہے مردانہ و زنانہ پوشیدہ بیماریوں پر بات کرے، آئین و مذہب کی پیچیدگیاں سلجھائے، دہشتگردی کے معاملات پر ہردم ماہرانہ رائے دے، علاقائی دشمنیوں اور دوستیوں کی گرہیں باندھے/کھولے، بین الاقوامی تعلقات کے نشیب و فراز بیان کرے ، پانی سے ہزار سی سی کار چلائے ، نیوز سٹوڈیو میں جوڈو کراٹے کرے یا بخشو کے بدن پر باقی لنگوٹی کھینچ کر اسکے “پوشیدہ اثاثے” ظاہر کرنے کی کوشش کرے، کس کی مجال ہے کہ پوچھ سکے۔ کوئی پوچھے تو ایک کالم، ایک پروگرام، ایک احتجاج یا خبطِ عظمت پر مبنی ایک مسکراہٹ کی ہی تو مار ہے۔